Saturday 16 February 2019


               تقلید کی شرعی حیثیت      محمد زین الحق –        
        مدرس - قاضیر بازار سنیر مدرسہ
                                                                                                                  راتاباڑی، کریم گنج ، آسام

تقلید کے لغوی معنی گلے میں کسی چیز کا لٹکانا پیروی کرنا کسی کے قدم بقدم چلنا تحقیق کی ضرورت نہ رکھنا وغیرہ    -
تقلید کے اصطلاحی معنی دینی معاملات میں آئمہ مجتہدین میں سے کسی کی فہم وہ بصیرت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے اوپر عمل کرنے کو اصطلاح میں تقلید کہتے ہیں
دین کی اصل دعوت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی اطاعت کی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی اس لئے واجب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور فعل سے احکام الہی کی ترجمانی فرمائی ہے کہ کون سی چیز حلال ہے اور کون سی حرام ہے کیا جائز ہے اور کیا ناجائز لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالی کی اطاعت ہے ارشادباری تعالی ہے "ومن يطع الرسوله فقد اطاع الله" لهذا شريعت کے تمام معاملات ميں الله اور اسکے رسول کی اطاعت ضروری ہے اور جو شخص خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی اطاعت کرنے کا قائل ہو اور اس کو مستقل بالذات متاع سمجھتا ہو یہ یقینا مذموم ہے لہذا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کے احکام کی پاس داری اور اطاعت کرے –

        قرآن اور سنت میں بعض احکام ایسے ہیں جو آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے صراحت ثابت ہے لیکن بعض احکام ایسے ہیں جن میں کسی قدر ابہام و اجمال ہے اور بعض آیات و احادیث ایسی ہے جو چند معنی کا احتمال رکھتی ہے بعض محكم ہے اوربعض متشابہ کوئی مشترک ہے تو کوئی مول اور کچھ احکام ایسے ہے کہ بظاہر قرآن کی کسی دوسری آیات یا کسی دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتے ہیں مثلا قرآن شریف میں ہے" المطلقات یتربصن بانفسہن ثلاثۃ قروء " يعنى جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہے وہ تين قروء گزرنے تک انتظار کرے اور لفظ قروء عربی زبان میں حائض اور طهر دونوں میں مستعمل ہے ایسے موقع پر یہ الجمہن ہوتی ہے کہ مطلقہ عورت کی عدت تین حیض آجانے پر ختم ہوگی یا تین طہر ختم ہونے پر پوری ہوگی –

         اسی طرح حدیث میں ہے " من کان لہ امام فقراءۃ الامام له قراءة " (ابن ماجه) یعنی جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے کافی ہے دوسرے حدیث میں بھی اس طرح ہیں " انما جعل الامام ليؤتم به فإذا کبر فکبرو آو اذا قرأ فانصتوا" (مسلم شریف١٧٨) یعنے امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب قراءة کریں تو خاموش رہو-
        اس کے بالمقابل دوسری حدیث میں ہے " لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب"         ( بخاری شریف صفحه ١٠٤) یعنی جو شخص فاتحہ نہ پڑھی تو اسکا نماز نہ ہو گی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن میں ایک حدیث دوسری حدیث کے معارض معلوم ہوتی ہے جن کی تشریح یادفع تعارض بھی صحابہ سے اتفاق منقول نہیں آوران کے علاوہ بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کا حکم قرآن و سنت سے صراحت ثابت نہیں وہاں اجتہاد واستنباط سے کام لینا ہی پڑتا ہے ایسے موقع پر عمل کرنے والے کے لئے الجہن اور یہ دشواری پیدا ہوتی ہے کہ وہ کس پر عمل کریں اور کون سا راستہ اختیار کرے اس الجھن کو دور کرنے اور صحيح مسئلہ سمجھنے کے لئے ایک صورت تو یہ ہے کہ انسان اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کر کے اس کا خود کوئی فیصلہ کر لیں اور پھر اس پر عمل پیرا ہوجائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے یہ دیکھے کہ قرآن و سنت کے ان ارشادات سے ہمارے جلیل القدر ائمہ یعنی صحابہ تابعین و تبع تابعین جن کے بارے میں لسان نبوت کا یہ فیصلہ ہے " خیر القرون قرنى ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم" اور جو علوم قرآن وحدیث کے فہم سے زیادہ ماہر فہم و بصیرت ميں اعلی تقوی و طہارت میں فائق حافظه وذکاوت میں ا رفع تہے انہوں نے کیا سمجھا ہے اس پر عمل کرلیں –

        ایسے موقع پر دونوں صورتوں میں سے دوسری صورت اختیار کرنا ایسی ہے جیسے ہم اپنی دنیاوی معاملات میں ماہرین فون کے مشورون پر عمل پیرا ہوتے ہیں بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں کوٹ میں کوئی مقدمہ ہوجائے تو وکیل کے پاس جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور وہ جو کہتے ہیں اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں کہ حجت بازی نہیں کرتے اسی طرح دینی معاملات میں ان مقدس ترین حضرات کی فہم و بصیرت پر اعتماد کرتے ہوئے ان ائمہ مجتہدین میں سے کسی کے قول پر عمل کریں اور اسیا عمل کرنے کو اصطلاح میں تقلید کہا جاتا ہے اور اس صورت میں مقلد اپنے امام کا اتباع یہ سمجھ کر کرتا ہے کہ وہ دراصل قرآن اور سنت پر عمل کر رہا ہے اور صاحب شریعت ہی کی پروی کر رہا ہے اور تصور کرتا ہے کہ اس کی اور صاحب شریعت کے درمیان امام صرف واسطہ ہے جس نے صاحب شریعت کے باتوں کی تشریح و توضیح کر کے اس پر عمل کرنے کی آسان صورت دکھا کر ہم پر احسان کیا ہے مثال کے طور پر جس طرح جماعت کے نماز میں جبکہ جماعت بڑی ہو امام کی آواز دور کے مقتدیوں کو سنائی نہیں دیتی ہوں تو اس وقت مكبر مقرر کیے جاتے ہیں وه مکبر امام کے اقتداء کرتے ہوئے بلند آواز سے تکبیر کہ کر امام کی نقل و حرکت رکوع اور سجدہ کی اطلاعات پچھلے صف والوں کو دیتا ہے اور پچھلی صف والے یہ تصور کرتے ہیں کہ ہم امام ہی کی اقتداء اتباع کر رہے ہیں اور اسی کے پیچھے نماز ادا کر رہے ہیں اگر چہ رکوع سجدہ مکبر کی آواز پر کر رہے ہیں اور خود مکبر بھی یہی سمجھتا ہے کہ میں خود امام نہیں ہوں بلکہ میرا اور پوری جماعت کا امام صرف ایک ہی ہے سب اس کی اقتدا کر رہے ہیں ميں تو صرف امام کی نقل و حرکت کی اطلاع دے رہا ہوں بالکل یہی صورت یہاں ہیں کہ م‍‍قلد کا تصور یہی ہے کہ میں خدا اور رسول کی اطاعت اور اتباع کر رہا ہوں اور امام کو درمیان میں صرف مکبر تصور کرتا ہوں وہ صرف صاحب شریعت کی باتوں کی مشرح و موضح ہے کی مستقل بالذات مطاع نہیں بلکہ مستقل بالذات مطاع صاحب شریعت ہی کو یقین رکھتا ہے آور پہلی صورت یعنی مجتہدین میں سے کسی پر اعتماد نہ کرتے ہوئے اپنی فہم و بصیرت کے مطابق از خود فیصلہ کرکے اس پر عمل کریں مگر اس صورت میں صاحب شریعت کی اتباع نہ ہوگی بلکہ اپنی خواہش کی اتباع ہوگی کیونکہ خود مجتہد نہیں کہ وہ فیصلہ کرے ناسخ کون سی آیات و حدیث ہے اور منسوخ کیا ہے راحج کیا ہے اور مرجوح کیا ہے وغیرہ وغیرہ اور دنیا کے عام حالات ایسی ہے کہ ہر شخص اپنی من مانی چیزوں کی طرف مائل ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے خواہیش سے دل لگتی چیز پر عمل کرے گا لہذا اتباع خواہش نفس کی ہوگی اور شریعت کی نہ ہوگی اور انسان کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان کا یہ کامیاب حربا ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کے بندہ ہو جائے اور اس کے مطابق عمل کرنے لگے جو انسان کے دین کے لیے بہت ہی خطرناک ہے قرآن پاک میں بھی ہیں اللہ تعالی نے خواہشات نفسانی پر چلنے والوں کی بہت ہی مذمت فرمائی ہے کہ ایک جگہ اس کو خسيس ترین جانور کتے سے تشبیہ دی ہے - " ولكنه اخلد الى الأرض و أتبع هواه فمثله كمثل الكلب " یعنی وہ دنیا کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کرنے لگا تو اس کے حالات کتا کیسی ہوگئ ( سورہ اعراف پارہ ٩) اور ایک جگہ خواہش پرست کو بت پرست کے قائم مقام قرار دیا ہے جسے قولہ تعالی ‏" افرايت من اتخذ الہہ هواه واضله الله على علم وختم على سمعه و قلبه وجعل علی بصيرہ  غشاوۃ  " يعني سو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی حالت بھی دیکھیں جس نے اپنا خدا اپنی خواہش نفسانی کو بنا رکھا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کے باوجود سمجھ بوجھ کے گمراہ کردیا ہے اور کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اسسکی آنکہوں پر پردہ ڈالديا ہے (سورہ جاثيہ پارہ ٢٥) يعنی خاہش  نفسانی پر عمل کرنے کی وجہ سے خدا اسکو گمراہ کرديتا اور کان و دل پر مہر لگا دی جاتی ہے پھر اس کے دل میں صحيح بات نہیں اترتی اور نہ راہ راست کيطرف اس کا دل مائل ہوتا ہے اور پھر وہ گمراہی کے گھڑے میں گرتا ہی چلا جاتا ہے ان کے علاوہ اور بہت سے آیات و حدیثوں میں خواہش نفسانی پر عمل کرنے کی مذمت آئی جس کی بنیاد پر علمائے کرام نے بھی ان کی مذمت کی ہے اس لئے انسان کے لئے بہترین اور نجات کا راستہ یہی ہے کہ بجائے خود فیصلہ کرنے کے ائمہ ہدیٰ کے تقوی و طہارت اور خداداد بصیرت پر اعتماد کرتے ہوئے ائمہ اربعہ جن کی تقلید پر امت کا اجماع ہوچکا ہے ان میں سے کسی کی تقلید کرے جس میں دینی مصلحت اور نجات مضمر ہے جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ارشاد گرامی ہے کہ " أعلم أن فى الا خذه بهذه مذاهب الاربعه مصلحة عظيمة و في الأعراض  عنها كلها مفسدات كبيره" یعنی جنا چاہئے کہ ان مذاہب اربع کے اختیار کرنے میں بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض کرنے میں بڑا مفسدہ ہے( عقد جيد) حوالہ و فتوی رحیمیہ١٠١-
         قرآن اور سنت اور اقوال صحابہ و سلف صالحین سے تقلید کا ثبوت كما في قوله تعالى   " ولو ردوه الى الرسول والى اولي الامر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم " یعنی اگر وہ لوگ اس امر کو رسول کی اور اوللامر کے حوالہ کرتے تو جو لوگ اہل فقہ اور اہل اسطنبات ہیں وہ سمجھ کر ان کو بتلہ دیتے کہ کون سی چیز قابل عمل ہے اور کونسی چیز نہ قابل عمل –

      (٢) " اتبع سبيل من اناب الي " يعنی اس شخص کی پیروی کرو جو میری طرف رجوع کئے ہوئے ہے

      (٣) "يا ايها الذين امنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول اولي الامرمنكم " اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اولو الامر کی - 

      (٤) " فاسئلوا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون " اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو-

       مذکورہ تمام آیاتوں ميں اہل علم و اجتہاد کے اتباع و تقلید کی تاکید فرمائی گئی جس سے تقلید کا لازمی ہونا واضح اور ظاہر ہے ان کے علاوہ اور بہت سی آیات اس بارے میں موجود ہے اب چند حدیثيں سنۓ –

      (١)  "عن حذيفه رضي الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم اني لا ادری ما بقائ فيكم فا قتدوا بالذين بعدی ابی بكر وعمر" حضرت حذیفہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ کب تک تم لوگوں میں زندہ رہوں گا لہذا میرے بعد ان دونوں شخصوں یعنی ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما کا اقتدا کرو (مشکوۃ٥٢٠)

      (٢) "عليكم بسنتي وسنهة الخلفاء الراشدين المجتهدين " یعنی تم میری سنت اور میرے ہدایت-یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے رہو-

      (٣) "عن معاذ بن جبل رضي الله تعالى عنه ان رسول الله عليه و سلم لما بعثه الى اليمن قال كيف تقضى اذا عرض لك قضاء قال اقضي بكتاب الله قال فان لم تجد في كتاب الله قال بسنۃ رسول الله صلى الله عليه و سلم قال فان لم تجد في سنه رسول الله صلى الله عليه و سلم قال اجتهد برائ ولا آلو فضربه رسول الله صلى الله عليه و سلم علي صدره وقالوا الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله صلى الله عليه و سلم لما يرضى به رسول الله صلى الله عليه و سلم " یعنی حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا قاضی بنا کر روانہ کیا تو یہ دریافت فرمایا کہ جب کوئی قضيه پیش آیا تو کس طرح فیصلہ کرو گے عرض کیا کتاب اللہ سے فیصلہ کرونگا فرمایا اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو عرض کیا رسول اللہ کی سنت سے فیصلہ کروں گا  فرمایا اگر اس میں بھی ہیں نہ ملے تو عرض کیا پھر اجتہاد واستنباط کر کے اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا اور اس مسئلہ کا حکم تلاش کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑوں گا حضرت معاذ رضی اللہ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس جواب پر اپنے دوست مبارک میرے سینے پر مارا اور فرمایا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دے جسے اللہ کا رسول رضی اور خوش رہیں (ابوداود ١٤٩- مشکوۃ  ٣٢٤)

        مذکورہ پہلے دو احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر و عمر اور خلفائے راشدین کے اقتدار کو تقلید کرنے کا حکم دیا ہے اور تیسرے حدیث میں حضرت معاذ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا جا رہا ہے اور مسائل کے حل کرنے اور معاملات کو سلجہانے کی تعلیم فرمائی جا رہی ہے حضرت معاذ کو صرف قرآن وسنت نہیں بلکہ ممووقع پڑھنے پر قیاس و اجتہاد سے فتوی دینے کی ترغیب فرمائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے لیے اپنے فقہاء صحابہ میں سے صرف معاذ رضی اللہ کو یمن بھیجا اور انہیں حاکم قاضی اور معلم بنا کر اہل یمن کے لئے یہ لازم کردیا کہ وہ انہیں کی تقلید و اتباع کرے جس کا مقصد اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل یمن کو ان کی تقلید شخصی کی اجازت بلکہ اسکو ان کے لیے لازم کر دیا -
اقوال صحابہ

      (١) اعلام الموقعین للحافظ ابن القیوم اور سنن دارمی ميں منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا تھا کہ جس مسئلہ میں کوئی حدیث نہ ملے اس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فتوی پر عمل کیا جائے اگر آپ کا فتوی نہ ملے تو علماء کے مشورہ سے جو امر طے پائے اس کی تعمیل کی جائے (احسن الفتوی جلد ١ صفحہ ٤١٦) حضرت عمر رضی اللہ کے اس فیصلہ سے تقلید شخصی کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ لگائیے - خود محدث ' فقيۃ 'مجتہد اور تمام کمالات کے جامع ہونے کے باوجود حضرت صدیق اکبررضی اللہ کی تقلید کی التزام فرمایا اور عمر بھرآپ کے فتوی کے مطابق حکم دیتے رہے -

      (٢) بخاری مسلم اور ابو داؤد میں ہے - حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ سے ایک مسئلہ دریافت کیا گیا پھر وہی مسئلہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے پوچھا گیا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کا جواب حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ کے خلاف تھا جب ابو موسی اشعری کو اس کا علم ہوا تو سمجھ گئے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ہی کا جواب اور فتوی صحیح ہیں اس کے بعد ارشاد فرمایا لا تسئلونى ما دام هذا الحبر فيكم یعنی جب تک یہ متبحر عالم (ابن مسعود) تم میں موجود رہے تمام مسائل انہی سے دریافت کیا کروں اور وہ جو فتویٰ دے اسی پر عمل کرو مجھ سے دریافت نہ کرو (مشکوۃ شریف ٢٦٤)

        مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری نے عبداللہ بن مسعود کی تقلید کرنے کا حکم دیا ہے جس سے تقلید اور شخصی واضح اور بین طور سے ثابت ہوتا ہے –

        (٣) صحیح بخاری شریف میں ہے " عن عكرمة ان اهل المدينه سالو ابن عباس عن امرآۃ طافه ثم حاضت قال لهم تنفر قالوا لا ناخذ بقولك وندع قول زيد " (كتاب الحج ٢٣٧)  حضرت عکرمۃ رضی اللہ سے مروی ہے کہ اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جو طواف فرض کے بعد حائضه ہوگئی تو ابن عباس نے جو اب میں فرمایا وہ طواف ادا کئے بغیر واپس جا سکتی ہے اہل مدینہ نے کہا ہم آپ کے قول پر عمل کرکے زید بن ثابت کے قول فتویٰ طرف نہیں کرینگے روایت مذکورہ سے ثابت ہوتا ہے اہل مدینہ زید بن ثابت کے تقليد کیا کرتے تھے اس روایت کے اس جملہ پر غور کیجئے کہ جب اہل مدینہ نے ابن عباس سے یہ بات کہی تو ابن عباس نے نکیر نہیں فرمائی کہ تم اتباع و تقلید کے لئے ایک معین شخص کو لازم کرکے شرک و بدعت اور گناہ کے مرتکب ہو رہے ہو بلکہ اس نے ان کو اس کی اجازت دے دی لہٰذا ثابت ہوا کہ تقلید دور صحابہ میں مروج تھی -

اقوال و تحریرات سلف صالحین

       (١) علامہ ابن تیمیہ فتاوی ابن تیمیہ میں تحریر فرماتے ہیں " في وقت يقلدون ما يفسد النكاح و في وقت يقلدون من يصححه بحسب الغرز و الهواء و مثل هذا لا يجوز" یعنی وہ لوگ کبھی اس امام کی تقلید کرتے ہیں جو نکاح کو فاسد قرار دیتا ہے اور کبھی اس امام کی جو اسے درست قرار دیتا ہے اپنی غرض اور خواہش کے مطابق اور اس طرح عمل کرنا بالاتفاق ناجائز ہے  (فتاوی رحمیہ)-

       (٢) علامہ جلال الدین محلی شرح جمع جوامع میں تحریر فرماتے ہیں " يجب علي العامی و غيره من لم يبلغ مرتبۃ الاجتهاد التزام مذهب معين من مذاهب المجتهدين " یعنی واجب ہے عامی اور غیر عامی پر جو کہ درجہ اجتہاد کو نہ پوچھا ہو مجتہدین کے مذاہب میں سے ایک مذہب معین کو عمل کے لیے اپنے اوپر لازم کر لینا ( فتوی رحیمیہ) -

        (٣) شارح مسلم شیخ محی الدین نووی رح (روضۃ الطالبین) میں تحریر فرمائی ہیں " اما الاجتہاد المطلق فقالو ١ختتم  با الائمۃ الاربعه حتى اوجبوا تقليد واحد من من هؤلاء على امته ونقل امام الحرمين الاجماع عليه " یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربع پر ختم ہو گیا حتیٰ کہ مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پرواجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر (ائمہ اربعہ ہی کی تقلید کے واجب ہونے ) پر اجماع نقل کیا ہیں  (فتاوی رحمیہ) -

       (٤) امام ابراہیم سرخسی مالکی مرعى رح الفتوحات الوهبيه شرح اربعین نوويۃ  میں تحریر فرماتے ہیں " اما في ما بعد ذلك كما قال ابن ا الصلاح فلا یجوز تقلید غیر الائمۃ الاربعۃ مالک و ابی حنیفۃ والشافعی واحمد لان ہؤلاء عرفت قواعد مذاہبہم واستقرت احکامہا  وخدمها تابعوہم و حرروها فرعا فرعا وحكما حكما " یعنی اس زمانہ کے بعد (صحابہ کے دور کے بعد) جس طرح کے ابن صلاح نے بھی کہا ہے ائمہ اربعہ امام مالک رضی اللہ امام ابو حنیفہ امام شافعی امام احمد بن حنبل کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب کے قواعد معروف ہیں اور ان کے احکام مستقر ہو چکے ہیں اور ان حضرات کے تابع اداروں نے ان کے بعد ان مذاہب کے خدمت کی ہے اور تمام احکام کو فرعا فرعا لکھ دیا ہے  اور ہریک کا بھی بیان کردیا ہے  (فتاوی رحیمیہ  جلد -١)

        (٥) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے – " وفی ذالک (ای التقلید) من المصالح ما لا یخفی لا سیما فی ھذہ الایام التی قصرت فیھا الھمم  جدا  او اشربت النفوس الھواء واعجب کل ذی رای رآیہ "  ترجمہ : اور اسمیں ( یعنی مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرنے میں) بہت سی مصلحتیں ہیں  جو مخفی نہیں ہے ۔ خاص کر اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں بہت پست ہوگئی ہیں اور نفوس میں خوہشات نفسانی سرایت کر گئی ہیں اور ہر رائے والا اپنی اپنی رائ پر ناز کرنے لگا ہے ۔ اور "عقد الجید " میں تحریر فرماتے ہیں " باب تاکید الا خذ بمذہب الاربعۃ والتشدید فی ترکھا والخروج عنھا اعلم ان  فی الا خذ بھذہ المذاہب الا اربعۃ مصلحۃ عظیمۃ فی الاعراض عنھا کلھا مفسدۃ کبیرۃ " یعنی ان چار مذہبوں کے اختیار کرنے کی تاکید اور انکو چھوڑنے اور انسے باہر نکلنے کی ممانعت شدیدہ کی بیان میں (اعلم) جننا چاہئے کہ ان چاروں مذہبوں کے اختیار کرنیمیں ایک بڑی مصلحت ہے اور سب سے اعراض اور روگردانی میں بڑا مفسدہ ہے ( الجوالہ فتاوہ رحیمہ جلد- ١)

       (٦) فقیہ العصر علامہ مفتی رشید احمد صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں " تقلید شخصی کا وجوب" – واجب کی دو قسمیں ہیں – لعینہ ولغیرہ – واجب لغیرہ کا مطلب یہ ہے کہ خود اس کام کے تاکید شریعت نے نہ کی ہو  مگر شریعت نے جن امور کو واجب قرار دیا ہو انکی تعمیل بدون اسکے عادۃ ناممکن ہو۔ اسلئے یہ امر بہی واجب ہوگا ۔ "لان مقدمۃ الواجب واجب" جیسے قرآن وحدیث کے جمع  و کتابت کی شرعیت میں کہیں تاکید وارد نہیں ۔ مع ہذا اسے واجب کہا جاتا ہے۔ اسی طرح تقلید شخصی واجب لغیرہ ہے کیونکہ تقلید شخصی کے ترک میں ایسے مفاسد ہیں کہ انسے احتراز واجب ہے (احسن الفتاوی -٤١٣)

          مذکورہ تمام دلائیل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور ظاہر ہوگئی کہ کسی مجتہد امام کی تقلید کرنا ہر غیر مجتہد مسلمان کے لئے اپنی ایمان اور عمل کی صیانت وحفاظت کے لئے لازم وضروری ہے  ورنہ لا علمی کی وجہ سے خواہشات نفسانی میں مبتلا ہو کر دنیا اور اخرۃ تباہ و برباد ہو جائےگا – واللہ اعلم بالصواب ۔



===============

No comments:

Post a Comment