Thursday 8 December 2022

শায়খ বদরপুরি রহ

 'তিনি' এ পৃথিবীতে সূর্যের মতো এলেন এবং উত্তর-পূর্ব ভারতের আকাশকে উজ্জ্বল করে চলেও গেলেন। ক্ষণজন্মা এ লৌহ মানব যাবার সময় পৃথিবীতে রেখে গেলেন তার পদচিহ্ন । রেখে গেলেন সাগর সেঁচা মানিকের মত অসংখ্য  বাণী । বলে গেলেন "#নেদায়ে_দ্বীন_আমার_গায়ের_চামড়া" । যুগশ্রেষ্ঠ এ মহান মনীষীর একটিমাত্র কথাতেই নেদায়ে দ্বীনের জনপ্রিয়তা আজ আকাশচুম্বী। যতোটুকু জানি জন্ম থেকে প্রকাশনার ক্ষেত্রে যার আজ অব্দি কোন ছেদ নেই । সংগ্রামী এ দ্বীনি পত্রিকাটি আজ সমগ্র উত্তর পূর্ব ভারতের মানুষের কাছে এক বিপ্লবের প্রতীক । যার প্রতিটি কপি শুধু পড়ার জন্য নয়, সংরক্ষণযোগ্যও । কাজেই যারা আজও নেদায়ে দ্বীনের  গ্রাহকের মর্যাদা অর্জন করতে পারেননি তারা যেন অতিসত্বর গ্রাহক হয়ে সিরিক ও বেদ'য়াতের বিরুদ্ধে নিরলস সংগ্রামে অংশীদারিত্ব অর্জন করেন। 

মুহাম্মদ নূরুল হক,

মুহতামিম, আলজামিয়া, রাতাবাড়ী ।

Wednesday 29 June 2022

ملک کے موجودہ حالات اور کرنے کے اہم کام

ملک کے موجودہ حالات اور کرنے کے اہم کام خطاب:حضرت مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم (شیخ
 الحدیث و مہتمم دارالعلوم دیوبند) ترتیب و تلخیص: عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ اس وقت ملک کے جو تشویش ناک حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں،ہر شعور رکھنے والا جانتا ہے کہ مسلمان، اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف دن بہ دن دائرہ تنگ کیاجارہاہے، حالات نازک سے نازک تر ہوتے جارہے ہیں، پہلے بھی فسادات ہوتے تھے کچھ دکانیں جل جاتی تھیں، کچھ مکانات میں آگ لگ جاتی تھی، کچھ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے،پھر آہستہ آہستہ زخم مندمل ہوجاتے تھے؛ لیکن اب شرعی احکام اور شعائرِ اسلام پر حملے ہورہے ہیں،اسلامی حجاب پر، نمازِ جمعہ کھلے میں اداکرنے پر اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دینے پر پابندی عائد کی جارہی ہے نیز اس طرح کے کئی ایک مسائل(جن کا اسلامی تشخص سے تعلق ہے) برابر اٹھائے جارہے ہیں اور ماحول کو زیادہ سے زیادہ زہریلا اور گندا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں The Kashmir file کے نام سے کشمیری پنڈتوں سے متعلق ایک فلم بنائی گئی اور پورے ملک میں دکھائی گئی؛جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف غیرمسلوں کے دلوں میں نفرت کا جذبہ پیدا ہو، وہ اشتعال میں آئیں اور انتقامی کارروائی کے لیے انہیں ابھارا جائے۔ ناموافق حالات مسلسل آرہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کا علم و ادراک نہیں۔سب جانتے ہیں؛مگر اس کے مقابلے کے لیے تیار نہیں؟ جو لوگ دانشور کہلاتے ہیں یا اپنے کو فکرمندظاہرکرتے ہیں وہ سوائے قائدین کو کوسنے اور سوشل میڈیا پر زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کررہے ہیں،عام مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ یہ بات کسی کی طرف سے سامنے نہیں آرہی ہے،آج میں یہی بات عرض کرنا چاہتاہوں کہ ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے اور ہم سب کو کیا کرنا چاہیے؟؟میرے خیال میں تین کام ہیں جو اس وقت ہمارے کرنے کے ہیں۔میں سب سے پہلے اپنے آپ سے مخاطب ہوں،پھر اپنے اہلِ خانہ و متعلقین سے، پھر اہلِ محلہ و اہلِ شہر سے اور پورے ملک کے لوگوں سے جہاں تک یہ آواز پہونچ سکتی ہے۔ پہلا کام: سب سے پہلی چیز اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور اعمال و اخلاق کو درست کریں، اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَا تَہِنُواْ وَلَا تَحْزَنُواْ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ(آل عمران:۹۳۱) تم کمزور مت پڑو اور رنجیدہ مت ہو، تم ہی سربلند رہوگے بشرطے کہ تم ایمان والے ہو،یعنی ایمان تمہارے اندر مضبوط ہو اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہو تو یقینی طور پر تمہیں کامیابی اور سربلندی ملے گی۔یاد رکھیں!یہ اللہ کا جو اعلان ہے، وہ ہمیشہ کے لیے ہے:فلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیلاً وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیلاً (فاطر:۳۴)تم ہرگز اللہ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے، اللہ کے فیصلہ میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا،جو ضابطہ ہے،وہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ لہذا سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ کمزور نہ پڑیں، بزدل نہ بنیں، دل کے اندرایمانی قوت پیدا کریں، موت ایک مرتبہ آنی ہے اور وقت مقرر پر آنی ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے، اس کا استحضار رکھیں۔ موت کا ایک دن معین ہے: ایمان کی بنیادی چیزوں میں یہ بات شامل ہے کہ جب بندہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ کی طرف سے اپنی عمر متعین کرواکے آتاہے: فاذَا جَآءَ أَجَلُہُمْ لَا یَسْتاْخِرُونَ سَاعَۃً وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ (الاعراف:۴۳) جب مرنے کا متعین وقت آجاتاہے تو بندہ نہ ایک لمحہ آگے جاسکتاہے اور نہ ایک لمحہ پیچھے آسکتاہے۔قرآن مجید کے مطابق آدمی اگر مضبوط قلعوں کے اندر بھی چھپ کر بیٹھے گا تو موت وہاں پہونچ کر رہے گی۔ اس لیے موت تو آنی ہے، ہر ایک کو آنی ہے،اپنے وقت پر آنی ہے اور صرف ایک مرتبہ آنی ہے؛لہذا موت کے خوف سے آدمی کا ہر وقت ڈرتے رہنا اور اپنے دل کو کمزور کرنا یہ ایمانی قوت کے بالکل خلاف ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال تو یہ تھا کہ ان کو میدان جنگ میں برچھی لگتی تو وہ کہتے: فُزتُ وَرَبِ الکَعبَۃ خدا کی قسم میں تو کامیاب ہوگیا؛ اس لئے دل کو مضبوط رکھیں اور جو کام کرنے کے ہیں،انہیں کرتے رہیں،ایمان کو طاقت وربنانے کے ساتھ ساتھ اعمال کی اصلاح کریں، اخلاق کو درست کریں، جلوت اور خلوت کی زندگی کو تقوی والی زندگی بنائیں، اللہ کی نافرمانی سے اپنے آپ کو بچائیں،رمضان ہو کہ غیر رمضان نمازوں کا اہتمام سو فیصد ہو،دیگر اسلامی احکامات پر مکمل عمل پیرا رہیں،اسی طرح جو ہماری اخلاقی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں، ان سے خود بھی رکیں اور توبہ کریں ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر والوں کو، بچوں کو،عورتوں کو، جوانوں کو ان سے روکیں، ماحول سے خرابیوں کو مٹانے کی کوشش کریں؛ اس لیے کہ اللہ کی مدد تقوی اور صبر کے ساتھ مشروط ہے: إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ(یوسف:۰۹) جو آدمی تقوی اختیار کرتا ہے،اللہ سے ڈرتاہے اور دین پر جم جاتاہے،اللہ تعالی اس کی مدد فرماتے ہیں اور اس کے اجر کو ضائع نہیں فرماتے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی اِسی تقوی اور صبر کی بنیادپر مدد ہوئی ہے؛ لہذا ہم بھی اپنے ایمان کو بنائیں، اعمال کو درست کریں اور اخلاق کو سنوارنے کی فکر کریں۔ دوسرا کام: دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اسلام کا سچا پیغام لوگوں تک پہونچائیں؛اس لیے کہ ایک تصویر تو اسلام اور مسلمانوں کی وہ ہے جو دوسروں کی طرف سے دنیا والوں کے ذہن میں بٹھائی جارہی ہے کہ یہ متشدد ہیں، دہشت گرد ہیں، بد اخلاق ہیں، قاتل ہیں، خونی ہیں وغیرہ اور ایک اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے جو ہمیں اسلام نے سکھائی ہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے،جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قائم تھے،یعنی ہم امن پسند ہیں، غریبوں، مسکینوں اور پڑوسیوں کے مددگار ہیں، انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی خبر گیری اور ہم دردی کرنیوالے ہیں۔۔۔۔۔ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اِس کو ثابت کریں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں!اغیار کی غلط تشہیروں، فرضی فلموں اور بے بنیادپروپیگنڈوں کے ذریعہ مسلمانوں کے تشدد پسند، دہشت گرد اور خونخوار ہونے کا جو تصور بٹھایا جارہاہے،یہ صرف تقاریرو بیانات سے ختم نہیں ہوگا؛بل کہ عمل کے ذریعہ اس کا ازالہ کرنا ہوگا۔ آپ دیکھ لیجیے!ابھی سال دوسال پہلے لاک ڈاؤن کے زمانہ میں جو پریشانیاں آئی ہیں،زندگی کے لالے پڑے ہیں، کھانے پینے کی چیزوں کا قحط ہوا ہے، اس موقع پر جن مسلمانوں نے اسلامی اخلاق اور انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا ہے، اُس کا اثر برادرانِ وطن پر پڑا اور جو مسلمانوں سے نفرت کرنے والے تھے، ان کے اندر احساس پیداہوا اور اُنہیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہم مسلمانوں کے بارے میں غلط رائے رکھتے تھے!۔۔۔۔۔ایسا کیوں ہوا؟ اِس لیے کہ اُس وقت اسلامی اخلاق کا مظاہر کیاگیا، اسلام کا عملی تعارف پیش کیا گیا اور نبوی تعلیمات کا نمونہ دکھایا گیا۔اگر ہماری زندگی میں یہ کام ہمیشہ زندہ رہیں اور ہم نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے بجائے محبت سے دینے لگ جائیں تو ان شاء اللہ اُس کا ضرور اثر ہوگا اور اچھے نتائج سامنے آئیں گے: اُن کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ہمیں محبت کا پیغام عام کرنا چاہیے، محبت کا پیغام پہونچانا چاہیے اور محبتوں کو بانٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ہرگز دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے،جو حالات چل رہے ہیں،ہم دیکھ رہے ہیں، نہ کوئی سیاسی پارٹی اِن کے خلاف آواز اٹھارہی ہے، نہ کوئی سیاسی لیڈرکھل کر سامنے آرہاہے،ہمیں جو کچھ کرنا ہے اپنے زور بازو اور قوت ایمانی کی بنیاد پر کرناہے؛ اس لیے اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں اور دل کے اندر ہمت پیدا کریں۔اب رہا یہ سوال کہ حالات کی بناء پر جو دل میں کمزوری آرہی ہے،ذہن میں جوخوف بیٹھا ہواہے،عجیب طرح کی دہشت طاری ہے،اس کی کیا وجہ ہے اور یہ کیسے دور ہوگی؟؟؟ہماری بے وزنی کا اصل سبب: اس موقع پر ایک حدیث یاد آئی، جو پہلے سے آپ کے علم میں ہوگی اور آپ بارہا سن چکے ہوں گے،وہ حدیث آج کے حالات پر من وعن صادق آرہی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یُوشِکُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الأکلَۃُ إِلَی قَصْعَتِہَا. فَقَالَ قَاءِلٌ: وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَءِذٍ قَالَ:”بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَءِذٍ کَثِیرٌ وَلَکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّیْلِ وَلَیَنْزِعَنَّ اللَّہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمُ الْمَہَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللَّہُ فِی قُلُوبِکُمُ الْوَہَنَ“ فَقَالَ قَاءِلٌ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا الْوَہَنُ قَالَ:”حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ“۔ ترجمہ:قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں، جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں،(آپﷺکا یہ فرمان سن کر) ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں؛ بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے؛لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح(بے وقعت) ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ”وہن“ڈال دے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے۔(ابوداؤد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ پیشین گوئی فرمائی تھی، اس وقت صحابہ کرامؓ کی شوکت تھی، قوت تھی دبدبہ تھا،ایک مہینے کے فاصلہ تک ان کا رعب پہونچا ہوا تھا،اس لیے وہ آپ ﷺکا ارشاد سن کر تعجب سے کہنے لگے: کیا اُس وقت ہم لوگ تعداد کے اعتبار سے بہت تھوڑے ہوں گے؟ آپﷺنے فرمایا:نہیں! تم لوگ اُس وقت تعداد میں بہت ہوگے؛ لیکن تمہاری حیثیت وہ ہوگی جو سیلاب کے زمانے میں پانی کی سطح پر بہنے والے کوڑے کرکٹ اور جھاڑ جھنکاڑ کی ہوتی ہے،نہ ان کی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے،نہ ان کے اندر کوئی طاقت و قوت ہوتی ہے، وہ بہاؤ سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتے، وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتے، پانی کا بہاؤ جدھر لیے جارہاہے، بہتے چلے جارہے ہیں، کہیں کوئی چیز آگئی ٹکرا گئے،نشیب آیا تو نیچے گرگئے۔۔۔۔بالکل اِسی طرح تم بے وقعت ہوجاؤگے۔ مزید فرمایا:اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری پیدا کردے گا۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ یہ بزدلی کہاں سے آئے گی اورکیوں آئے گی؟؟آپ ﷺنے فرمایا:اس کے دو سبب ہوں گے:دنیا کی محبت اور موت کی کراہیت۔یہ دو اسباب ہیں جو بزدلی لانے والے اوردل میں کمزوری پیدا کرنے والے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جو اسباب کمزوری اور بزدلی لانے والے ہیں ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو ختم کیاجائے اور انہیں ہٹانے کی کوشش کی جائے۔ دنیا کی محبت کیا ہے؟ دنیا کی محبت یہ ہے کہ ہم آخرت کی زندگی سے غافل ہوجائیں اور دنیا کی فانی لذتوں کے اسیر بن جائیں۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج نیند ہمیں پیاری ہے،نماز پیاری نہیں،ہم سود لے رہے ہیں،جھوٹ بول رہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، خیانت کررہے ہیں، وارثوں کا حق مار رہے ہیں،پڑوسیوں کو تکلیف پہنچارہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں، اور یہ سب کام چار پیسے کی خاطر، تھوڑی سی لذت اور تھوڑی سی راحت کی خاطر کیے جارہے ہیں،یہی حب الدنیا ہے؛جس کے ہوتے ہوئے اللہ کی مدد نہیں آسکتی۔ایک مقام پرارشاد باری ہے: قُلْ إِن کَانَ آبَآؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَٰنُکُمْ وَأَزْوَٰجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَٰلٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَٰرَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ أَحَبَّ إِلَیْکُم مِّنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّیٰ یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَٰسِقِینَ.(التوبۃ:۴۲) ترجمہ:اے پیغمبر! مسلمانوں سے کہہ دو کہ: اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں،تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔ یاد رکھیں!صرف فریاد کرنے اور حالات کا شکوہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنے اندر قوت پیدا کریں اور جن راستوں سے یہ کمزوری آرہی ہے، ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی کے ہاں ایمان و اعمال کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں اورایمان والوں کے امتحانات بھی ہوتے ہیں،ہم جانتے ہیں کہ صحابہ ؓ پر حالات آئے، غزوہ احد میں حالات آئے، غزوہ حنین میں حالات آئے اور صرف آپ ﷺ ہی پر نہیں،پچھلے انبیاء کرام پر بھی حالات آئے؛ جن کا قرآن میں تذکرہ کیا گیا کہ انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا یہاں تک کہ رسول اور اُن کے امتی کہنے لگے آخر اللہ کی مدد کب آئے گی، اللہ فرماتے ہیں: سنو!اللہ کی مدد قریب ہے۔ ایک مقام پراسی ابتلاوآزمائش کا یوں ذکر کیاگیا: وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْن(البقرۃ:۵۵۱) ہم ضرور تم کو آزمائیں گے؟ کس چیز سے آزمائیں گے؟ کچھ خوف میں مبتلا کریں گے،فاقے میں مبتلا کریں گے،مالوں کی کمی میں مبتلا کریں گے،جانوں کی کمی میں مبتلا کریں گے، پیداوار کی قلت کے ذریعہ آزمائیں گے،یہ سارے حالات ہماری طرف سے ضرور بالضرور آئیں گے؛لیکن یہ امتحان ہوگا۔ اور امتحان کس لئے ہوتاہے؟ یہ دیکھنے کے لیے کہ کون اس میں کامیاب ہوتاہے اور کون ناکام ہوتاہے۔ جو کامیاب ہوتاہے وہ نوازاجاتاہے اور جو ناکام ہوتاہے اس کو سزا ملتی ہے۔پھرفرمایا:اِس امتحان کے اندر کامیابی انہی لوگوں کو ملے گی جو ثابت قدم رہنے والے اور صبر کرنے والے ہیں۔صبر کے معنی صرف مصیبت کو برداشت کرنانہیں ہے؛ بلکہ مصیبت ہو یا راحت ہر حال میں دین پر جمے رہنا، ہر طاعت کو اختیار کرنا،ہر معصیت سے اپنے نفس کو روک کر رکھنا اور حالات کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر انہیں برداشت کرنا، یہ صبر کا مجموعہ ہے یعنی طاعت پرصبر، معصیت سے بچنے کے لیے صبراور مصیبت پرصبر۔ جہاں یہ صبر کی تینوں قسمیں پائی جائیں گی،اللہ فرماتے ہیں:ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیجیے!جن کا شیوہ اور طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کے پاس ہمیں لوٹ کر جانا ہے؛یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی طرف سے خصوصی رحمتیں بھی نازل ہوتی ہیں اور عام رحمت میں بھی ان کا حصہ ہوتا ہے اور یہی سیدھے راستہ پر چلنے والے ہیں۔ تیسرا کام: ان حالات میں تیسرا کام یہ ہے کہ ہم دعاؤں کا اہتمام کریں۔میں نے سب سے اخیر میں دعا کا ذکر کیا ہے؛اس لیے کہ صرف قنوتِ نازلہ پڑھنے سے، صرف آیاتِ کریمہ کا ختم کرنے سے اور صرف حصنِ حصین پڑھ کر ہاتھ اٹھانے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ حالات بدلیں گے اپنے آپ کو بدلنے سے اور اپنے اندر انقلاب پیداکرنے سے: خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا ہم اپنے کو بدلیں گے تو سب کچھ بدلے گا،اللہ تعالی کے یہاں فیصلے اعمال اور اخلاق کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں،دعائیں اپنی جگہ ضروری ہیں،اللہ پاک ہی دعائیں قبول کریں گے؛ لیکن دعاؤں کے ساتھ ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا؛اس لیے صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کریں۔ خلاصہئ کلام: ابھی جو باتیں آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں، اجمالی طور پر ان کا اعادہ مناسب سمجھتا ہوں۔سب سے پہلی بات: اپنا ایمان مضبوط کریں، اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور نئے سرے سے زندگی کا آغاز کریں۔ دوسری بات: برادران وطن اور پڑوسیوں کے سامنے اسلامی اخلاق و کردار کی وہ تصویر پیش کریں جو مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے،جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے؛ تاکہ ان کے ذہن کو گندگی سے بھرنے جو کوشش ہورہی ہے اس کا عملی توڑ ہوسکے۔ تیسری بات:دعا ئیں کرتے رہیں اوراس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو مضبوط رکھیں، خوف و دہشت دل سے نکالیں، موت کا خوف ختم کریں،یاد رکھیں!موت اپنے وقت پر آئے گی، وہ ایک مرتبہ آئے گی، کوئی موت کو روک نہیں سکتا؛لیکن موت کے ڈر سے ہم گھر کے اندر بیٹھے کانپتے رہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے، حق خود حفاظتی شریعت اور قانون نے ہم کو دیا ہے،اس کا استعمال کریں، خدانخواستہ حالات ایسے آجائیں کہ ہماری جان اور مال پر حملہ ہوجائے تو ہم بزدل بن کر گھر میں نہ بیٹھے رہیں۔ہم امن و امان کے محافظ ہیں،اس لیے اپنی طرف سے امن کے خلاف کوئی اقدام نہ کریں؛ لیکن اگر ہماری جان و مال اورعزت وآبرو پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو صرف چھت پر چڑھ کر نعرہ تکبیر نہ لگائیں؛بلکہ اللہ نے جتنی طاقت و ہمت دی ہے، جتنی استطاعت ہے، جو اسباب فراہم ہیں، ان کے ذریعہ اپنا دفاع کرنے کی کوشش کریں!اخیر میں پھر کہوں گا کہ موت آئے تو عزت کے ساتھ آئے؛ لیکن دلوں میں بزدلی اور کمزوری بٹھاکر اپنے کو دوسروں کے سپرد کردینا، ایمان والے کی شان نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطافرمائے اور صحیح طورپرعمل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین

Monday 9 May 2022

جان ومال کی حفاظت ایک اسلامی اورانسانی فریضہ ہے

جان ومال کی حفاظت ایک اسلامی اورانسانی فریضہ ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ یہ نعمتیں انسان کے پاس ایک امانت کی طرح ہیں جن میں خیانت نہیں کی جا سكتي حفاظت کا تعلق آبادیوں سے بھی ہوتا ہے اور فطری طور پر انسان اپنے ہم مذہب ، ہم وطن یا ہمعصر سے مل کر خوش ہوتا ہے۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کا مالک نہیں ہے، امین ہے، جان ہو یا مال اور عزت وآبرو، یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اور انسان کو ان کا نگہبان بنایا گیا ہے۔ اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خدا کی ان نعمتوں کے ساتھ ہمارا کیا سلوک ہونا چاہئے ؟ اس سلسلہ میں تین باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں : ایک یہ کہ ان نعمتوں کو احکام شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حاصل کیا جائے اور محض اپنی خواہش کو رہنمانہ بنالیا جائے ، دوسرے: ان نعمتوں کو ان کے صحیح مصرف میں خرچ کیا جائے ، ایسی چیزوں میں خرچ کرنے سے بچا جائے جن کو شریعت نے ناپسند کیا ہے ، تیسرے: اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق ان کی حفاظت اور نگہداشت کی جائے ۔ اسی لئے شریعت نے خود کشی کو حرام قرار دیا ؛ کیوں کہ انسان اپنی زندگی کا امین اورمحافظ ہے ، اس کا کام زندگی کی حفاظت ہے نہ کہ ہلاکت ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ناراضگی کے اظہار کے لئے خود کشی کرنے والے شخص پر نماز جنازہ تک نہیں پڑھی ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپؐ کی نگاہ میں یہ کس قدر مذموم اور نا پسندیدہ حرکت ہے ، مالی نعمتوں کے بارے میں بھی اسی احتیاط اور قدر دانی کی تعلیم دی گئی ، اگر کوئی شخص نہر کے کنارے بیٹھا ہو ، تب بھی آپؐ نے وضو میں اسراف اور فضول خرچی کو منع فرمایا ؛کیوں کہ یہ تقاضۂ امانت کے خلاف ہے ۔ اسلام امن و آشتی اور صلح و سلامتی کا نقیب ہے ؛ لیکن اس امن کا جو سماج کے تمام افراد و اشخاص اور طبقات کو عافیت فراہم کرتا ہو، نہ کہ ایک طبقہ کی بالادستی اور دوسرے کی مجبوری و لا چاری پر قائم ہو، اسی لئے اگر ایک شخص دوسرے شخص پر اور سماج کا ایک طبقہ دوسرے طبقہ پر زیادتی کرے تو اسے اپنی مدافعت کا پورا پورا حق حاصل ہے ؛ کیوں کہ یہی عدل کا تقاضا ہے، اور حقیقی امن وہی ہے جس کی عمارت عدل و انصاف کی مضبوط بنیادوں پر اٹھائی گئی ہو، اس سلسلہ میں قرآن مجید کی تعلیمات بالکل واضح اور بے غبار ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ تم سے بلاوجہ آمادۂ پیکار ہوں، تم بھی ان سے اسی طرح مقابلہ کرو، ہاں، البتہ ایسے جذباتی مواقع پر بھی انتقام کی رومیں بہہ کر ظلم وزیادتی کا راستہ اختیار نہ کرو؛کیوں کہ اللہ تعالیٰ بہر حال زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔( البقرۃ : ۱۹۰) مدافعت کا، مقابلہ کااور ظالم کے پنجۂ ظلم کو تھامنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اسی میں امن کا بقاء اور انسانیت کا تحفظ ہے ۔ اگر کسی سماج میں ظلم کے لئے آگے بڑھنے والے ہاتھ ہوں لیکن ان کو قلم کردینے والی تلواریں نہ ہوں ، لباس حیاء کو تار تار کر دینے والی آنکھیں ہوں ؛ لیکن انھیں پھوڑنے والی انگلیاں نہ ہوں ، ظلم کا راستہ اختیار کرنے والے قدم ہوں اور ان کے بڑھتے ہوئے قدم کو قید میں لانے والی زنجیریں نہ ہوں ، تو وہ سماج ظلم و ستم کی آماجگاہ بن جائے گا اور عدل وانصاف کو وہاں سے ہمیشہ کے لئے رخت ِسفر باندھنا ہوگا؛ اس لئے یہ بات ضروری ہے کہ سماج کے اچھے لوگ ایسے انسانیت دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں، اور جو لوگ مشق ستم بنائے جاتے ہوں ، وہ طاقت بھر اپنی مدافعت کے لئے تیار رہیں ، اس سے صرف ان کی شخصی حفاظت ہی متعلق نہیں ؛ بلکہ انسانیت اور انصاف کا تحفظ متعلق ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے یہ کوئی اختیاری عمل نہیں ہے ؛ بلکہ ایسا کرنا اس پر شرعاً واجب ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان و مال ، دین ، اہل و عیال اور عزت و آبرو کی حفاظت میں مارے جانے والوں کو شہید قرار دیا ہے۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے، وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت میں مارا جائے، وہ شہید ہے ، جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا جائے، وہ شہید ہے، اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت میں مارا جائے، وہ شہید ہے ۔ ‘‘ ( ترمذی : ۱۲؍ ۲۶۱ ، باب ما جاء من قتل دون مالہ فہو شہید ) ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس کا مال ناحق لینے کی کوشش کی جائے اور وہ اس کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے، وہ بھی شہید ہے۔‘‘ ( ابو داؤد ۲ ؍ ۶۵۸، ترمذی :۱ ؍ ۲۶۱) جان کی حفاظت تو ظاہر ہے ، مال کی حفاظت میں یقیناً دکان، کاروبار، سواریوں وغیرہ کی حفاظت شامل ہے۔ دین کی حفاظت میں مساجد و مدارس ، خانقاہیں ، مسلمانوں کے مقابر اور مسلمانوں کے مذہبی پیشوا سب شامل ہیں ؛ کیوں کہ یہ سب شعائر دین کا درجہ رکھتے ہیں؛ اس لئے ان سب کی حفاطت مسلمانوں کا فریضہ ہے اور اگر ان کی حفاظت و صیانت میں کسی مسلمان کی جان جاتی ہے تو یقیناً وہ شہید ہے ، اہل و عیال کی حفاظت میں ان کے جان ومال کے ساتھ ساتھ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت بھی شامل ہے ؛ کیوں کہ عزت و آبرو کی اہمیت انسان کے حق میں اس کی جان اور زندگی سے کم نہیں ؛ بلکہ ایک غیرت مند انسان کے لئے بعض اوقات جان کا دے دینا عزت و آبرو کی پامالی کو قبول کرنے سے زیادہ آسان ہوتا ہے ۔ تحمل و بردباری الگ چیز ہے ، بزدلی اور خود سپردگی الگ چیز۔ کسی بھی قوم میں بزدلی کا پیدا ہو جانا ، ایک ایسا مرض ہے جو اس کو میدان عمل میں تگ و دو سے روک دیتا ہے ، شجاعت و بہادری ، بلند حوصلگی ، قوت ارادی کسی بھی زندہ قوم کے لئے ضروری وصف ہے۔ مسلمان مختلف آزمائشوں سے گزرتے ہیں لیکن مؤرخین نے سب سے زیادہ ماتم تاتاری فتنہ کا کیا ہے ، تاتاریوں کے حملہ نے مسلمانوں کو صرف پسپا ہی نہیں کیا بلکہ ان کو کم ہمت اور پست حوصلہ کر کے بھی رکھ دیا تھا ، وہ بزدلی اور دون ہمتی کے ساتھ قتل ہوتے رہتے اور مدافعت کی کوئی کوشش نہیں کرتے ۔ اسی حق مدافعت کا نام ’’ حفاظت خود اختیاری‘‘ ہے ، جسے دنیا کے تمام مذاہب اور جدید وقدیم نظام ہائے قانون میں تسلیم کیا گیا ہے ، جس کا مقصد ظلم کو روکنا اور امن کو پائیدار بنانا ہے۔ حفاظت خود اختیاری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کسی قوم کے کچھ لوگوں نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہو تو ہم قصور وار و بے قصور اور مجرم وبے گناہ میں فرق کئے بغیر اس قوم کے لوگوں پر ہلہ بول دیں اور قتل و غارت گری مچائیں ، اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ اگر کچھ لوگوں نے اپنی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورتوں کو بے آبرو کیا ہو تو مسلمان بھی ایسی ہی ناشائستہ اور غیر شریفانہ حرکت پر اتر آئیں ، یہ وہی ’’ اعتداء ‘‘ یعنی حد سے گزر جانا ہے ، جس کو قرآن مجید نے منع کیا ہے ؛ لیکن جو لوگ واقعی مجرم اور قصور وار ہوں ، ان سے اپنی حفاظت اور ان کے خلاف مناسب رد عمل، جو ملکی قوانین کے مطابق ہو، ایک مذہبی اور انسانی فریضہ ہے ، جس سے پہلو تہی کسی طور مناسب نہیں ۔ حفاظت خود اختیاری کے مختلف ذرائع ہیں ، اول خود اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنا کہ ناگہانی حملوں کا مقابلہ کر سکیں اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی حفاظت کے اسباب مہیا رکھنا ؛ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی فرمائی، جن سے جسم میں توانائی پیدا ہو ؛ چنانچہ آپؐ نے کُشتی، دوڑ، گھڑ سواری وغیرہ کو پسند کیا اور اس کی حوصلہ افزائی فرمائی ، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ طاقتور مؤمن کمزور مومن سے بہتر ہے۔ حفاظت خود اختیاری میں یہ بات بھی داخل ہے کہ مسلمان اپنے محلہ میں اجتماعی مدافعت اور حفاظت کا ماحول بنائیں ، یعنی اگر ایکر شخص پر حملہ ہو ، یا محلہ کے کسی مکان پر یلغار ہو جائے تو تمام لوگ اس کی حفاظت کیلئے دوڑ پڑیں ، ہر شخص اس کو اپنے آپ پر حملہ تصور کرے اور مقابلہ کرنے کے لئے اُٹھ کھڑا ہو، یہ بات کہ ہر آدمی اپنی باری کا انتظار کرے اور یکے بعد دیگرے خود سپردگی اختیار کرتا جائے ، غیر دانشمندانہ ، خود غرضی اور ہلاکت خیز بزدلی بلکہ خود کشی ہے ۔ اجتماعی قوت مؤثر بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شریک حال رہتی ہے، اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جماعت کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔‘‘البتہ یہ ضروری ہے کہ ایسی اجتماعیت کی قیادت صالح ، سنجیدہ اوردور اندیش لوگوں کے ہاتھوں ہو، نہ کہ شر پسند، بدمعاش اور مشتعل مزاج لوگوں کے ہاتھ میں؛ کہ ایسی صورت میں فائدہ سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے ۔ حفاظت کا تعلق آبادیوں کی ہیئت سے بھی ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ تناؤ کا ماحول ہو اورمفسد مزاج لوگ امن کو درہم برہم کرنے کے در پے رہتے ہوں ، وہاں خاص کر مسلمانوں کو اپنے ہم مذہب لوگوں کے درمیان آباد ہونا ضروری ہے ، اس سے وہ اپنی جان و مال ، کاروبار اور عزت و آبرو ہی کی حفاظت نہیں ؛ بلکہ اپنے عقیدۂ و ایمان اورتہذیب و ثقافت کی بھی حفاظت کر سکیں گے ؛ اسی لئے حضرات انبیاء کو ایسے شہروں سے ہجرت کرنے کا حکم دیا جاتا تھا ، جہاں دین حق سے عداوت و عناد رکھنے والوں کا غلبہ ہو، اور اہل ایمان کو اپنی بستی بسانے کی تلقین کی جاتی تھی۔ حفاظت کا تعلق قانون و آئین سے بھی ہے۔ یہ بد قسمتی ہے کہ قانونی پیشہ اختیار کرنے کا رجحان مسلمانوں میں کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے ، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر قانون ملکی کا شعور پیدا کریں ، کون سے جرم پر کون سی دفعہ عائد ہوتی ہے ؟ کس دفعہ کے تحت اپنا مقدمہ درج کرایا جائے ؟ پولیس میں فرقہ پرست عناصر دھوکہ دینے اور مقدمہ کو کمزور کرنے کے لئے کیا انداز اختیار کرتے ہیں اور شہادتوں کو کس طرح کمزور کرتے ہیں ؟ مسلمانوں کو اس سے آگاہ ہونا چاہئے ، یہ نا آگہی مجرموں کی جرأت بڑھا تی اور مظلوموں کی بےکسی میں اضافہ کرتی ہے ۔ حفاظت کا تعلق قیادت سے بھی ہے ، اس پر جس قدر رویا جائے کم ہے کہ مسلمان نہایت تکلیف دہ حالات سے گزرنے کے باوجود اپنے مشترک مسائل کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا نہیں جانتے۔ اشتراک اور اجتماعیت سے قیادتیں بنتی اور اُبھرتی ہیں؛ اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ قیادت سے اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اور اطاعت و فرمانبرداری سے قیادت طاقتور ہوتی ہے۔ جب آپ کا ایک یا ایک سے زیادہ لیڈر ہو ، یا کوئی مشترکہ پلیٹ فارم ہواور اس کے ساتھ پوری قوم کا اعتماد اورتائید و تقویت ہو تو اس سے اس قیادت کا وزن حکومت میں اور دوسری قوموں میں بھی محسوس کیا جاتا ہے ، اس کی بات سنی جاتی ہے ، اس کی رائے کو وزن دیا جاتا ہے اور اس کی آواز کی قوت محسوس کی جاتی ہے۔ حفاظت خود اختیاری میں یہ ساری باتیں شامل ہیں، جسمانی طور پر اپنی حفاظت کی صلاحیت، قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی حفاظت و بچاؤ کے اسباب کا مہیا رکھنا ، مسلمانوں کا اپنی آبادیاں اور بستیاں بسانا، کسی حادثہ کے موقع پر اجتماعی طور پر حفاظت کے لئے ذہن کو تیار رکھنا ، مسلمانوں میںجرم و سزا کے قانون کا شعور پیدا کرنا اور ایک مؤثر اور اجتماعی قیادت کو کم سے کم مقامی سطح پر وجود میں لانا اور اسے تقویت پہنچانا ، یہ سب دین و ایمان ، جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے ضروری تدابیر ہیں اور امکان بھر حفاظت کی تدابیر اختیار کرنا اور اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق مدافعت ، دشمن کا مقابلہ اور ظلم سے پنجہ آزمائی صرف مصلحت کا تقاضا نہیں ہے؛ بلکہ ایک مذہبی اور انسانی فریضہ بھی ہے ۔ Husban Ahmed Asimganji

Saturday 7 May 2022

খলিফা হজরত উমর রাঃ এর বিচার

খলিফা হজরত উমর রাঃ এর বিচার একদিন মদীনার দুই ব্যক্তি একজন যুবককে টেনে-হিঁছড়ে, অর্ধপৃথিবীর শাসক খলীফা হযরত উমর (রা) এর দরবারে হাজির করল। এবং তারা বিচার দাখিল করল যে, "এই যুবক আমাদের পিতাকে হত্যা করেছে। আমরা এর ন্যায় বিচার চাই।" . আমিরুল মু’মিনীন খলীফা হযরত উমর (রা) সেই যুবককে তার বিপক্ষে করা দাবী সম্পর্কে জিজ্ঞেস করলেন। সেই যুবক বললেন, "তাদের দাবী সম্পুর্ণ সত্য।" এই বলে যুবকটি তাঁর অনাকাঙ্ক্ষিত ঘঠনাটি বর্ণনা করতে লাগলেন। . তিনি বললেন, "আমি ক্লান্ত হয়ে যাবার কারণে বিশ্রামের জন্য এক খেজুর গাছের ছায়ায় বসলাম। ক্লান্ত শরীরে অল্প সময়েই ঘুমিয়ে গিয়েছিলাম। ঘুম থেকে উঠে দেখি আমার একমাত্র পছন্দের বাহন উটটি পাশে নেই। খুঁজতে খুঁজতে কিছু দূর গিয়ে পেলাম, তবে তা ছিল মৃত। পাশেই ছিল ওদের বাবা। যে আমার উটকে তার বাগানে প্রবেশেঅপরাধে পাথর মেরে হত্যা করেছে। এই কারণে আমি হঠাৎ করে রাগান্বিত হয়ে পড়ি এবং তাদের বাবার সাথে তর্কাতর্কি করতে করতে এক পর্যায়ে মাথায় পাথর দিয়ে আঘাত করে ফেলি, ফলে সে সেইখানেই মারা যায়। যা একেবারেই অনাকাঙ্ক্ষিতভাবে ঘটে গেছে। এর জন্য আমি ক্ষমাপ্রার্থী।" . বাদী’রা জানালেন- "আমরা এর মৃত্যুদণ্ড চাই।" হযরত উমর (রা) সব শুনে বললেন, "উট হত্যার বদলে তুমি একটা উট নিলেই হতো, কিন্তু তুমি বৃদ্ধকে হত্যা করেছ। হত্যার বদলে হত্যা। এখন তোমাকে মৃত্যুদন্ড দেয়া হবে। তোমার কোন শেষ ইচ্ছা থাকলে বলতে পারো।" নওজোয়ান বললো, "আমার কাছে কিছু ঋণ ও অন্যের রাখা কিছু আমানত আছে। আমাকে যদি কিছু দিন সময় দিতেন তবে আমি বাড়ি গিয়ে আমানত ও ঋণগুলি পরিশোধ করে আসতাম।" . খলিফা হযরত উমর (রা) বললেন, "তোমাকে এভাবে একা ছেড়ে দিতে পারি না। যদি তোমার পক্ষ থেকে কাউকে জিম্মাদার রেখে যেতে পারো তবে তোমায় সাময়িক সময়ের জন্য মুক্তি দিতে পারি। "নওজোয়ান বললো, "এখানে আমার কেউ নেই। যে আমার জিম্মাদার হবে। এখন আমি কি করি।" যুবকটি তখন নিরুপায় হয়ে দাঁড়িয়ে রইল। . এই সময় হঠাৎ মজলিসে উপস্থিত এক সাহাবী যার নাম হযরত আবু যর গিফারী (রা), দাঁড়িয়ে বললেন, "আমি হবো ঐ ব্যক্তির জামিনদার।" সাহাবী হযরত আবু যর গিফারীর (রা) এই উত্তরে সভায় উপস্থিত সবাই হতবাক। একেতো অপরিচিত ব্যক্তি তার উপর হত্যার দন্ড প্রাপ্ত আসামীর জামিনদার। খলিফা বললেন, "আগামি শুক্রবার জুম্মা পর্যন্ত নওজোয়ানকে মুক্তি দেয়া হলো। জুম্মার আগে নওজোয়ান মদীনায় না আসলে নওজোয়ানের বদলে আবু যরকে মৃত্যুদন্ড দেয়া হবে।" মুক্তি পেয়ে নওজোয়ান ছুটলো মাইলের পর মাইল দূরে তার বাড়ির দিকে। আবু যর গিফারী (রা) চলে গেলেন নিজ বাড়িতে। . দেখতে দেখতে জুম্মাবার এসে গেল। নওজোয়ানের আসার কোনো খবর নেই। হযরত উমর (রা) রাষ্ট্রীয় পত্রবাহক পাঠিয়ে দিলেন আবু যর গিফারির (রা) কাছে। পত্রে লিখা আজ শুক্রবার বাদ জুমা সেই যুবক যদি না আসে আইন মোতাবেক আবু যর গিফারির মৃত্যুদন্ড কার্যকর করা হবে। আবু যর যেন সময় মত জুম্মার প্রস্তুতি নিয়ে মসজিদে নববীতে হাজির হন। খবর শুনে সারা মদীনায় থমথমে অবস্থা। একজন নিষ্পাপ সাহাবী আবু যর গিফারী আজ বিনা দোষে মৃত্যুদন্ডে দন্ডিত হবেন। জুমার পর মদীনার সবাই মসজিদে নববীর সামনে হাজির। সবার চোখে পানি। কারণ দন্ডপ্রাপ্ত যুবক এখনো ফিরে আসেনি। জল্লাদ প্রস্তুত। . জীবনে কত জনের মৃত্যুদন্ড দিয়েছে তার হিসেব নেই। কিন্তু আজ কিছুতেই চোখের পানি আটকাতে পারছে না জল্লাদ। আবু যরের মত একজন সাহাবী সম্পূর্ণ বিনা দোষে আজ মৃত্যুদন্ডে দন্ডিত হবেন, এটা মদীনার কেউ মেনে নিতে পারছেন না। এমনকি মৃত্যুদন্ডের আদেশ প্রদানকারী খলিফা উমর (রা) নিজেও চিন্তিত হয়ে পড়েছেন। হৃদয় তাঁর ভারাক্রান্ত। তবু আইন তার নিজস্ব গতিতে চলবে। কারো পরিবর্তনের হাত নেই। আবু যর (রা) তখনও নিশ্চিন্ত মনে হাঁসি মুখে দাঁড়িয়ে মৃত্যুর জন্য প্রস্তুত। জল্লাদ ধীর পায়ে আবু যর (রা) এর দিকে এগুচ্ছেন আর কাঁদছেন। আজ যেন জল্লাদের পা চলে না। পায়ে যেন কেউ পাথর বেঁধে রেখেছে। . এমন সময় এক সাহাবী উচ্চ স্বরে জল্লাদকে বলে উঠলেন, "হে জল্লাদ একটু থামো। মরুভুমির ধুলার ঝড় উঠিয়ে ঐ দেখ কে যেন আসতেছে। হতে পারে ঐটা নওজোয়ানের ঘোড়ার পদধুলি। একটু দেখে নাও, তারপর না হয় আবু যরের মৃত্যুদন্ড কার্যকর করো।" ঘোড়াটি কাছে আসলে দেখা যায় সত্যিই এ সেই নওজোয়ান। . নওজোয়ান দ্রুত খলিফার সামনে এসে বললো, "হুযুর বেয়াদবি মাফ করবেন। রাস্তায় যদি ঘোড়ার পায়ে ব্যথা না পেত,তবে যথা সময়েই আসতে পারতাম। বাড়িতে গিয়ে আমি একটুও দেরি করি নাই। বাড়ি পৌঁছে গচ্ছিত আমানত ও ঋণ পরিশোধ করি। তারপর বাবা, মা এবং নববধুর কাছে সব খুলে বলে চিরবিদায় নিয়ে মৃত্যুর প্রস্তুতি নিয়ে মদীনার উদ্দেশ্যে রওনা দেই। এখন আমার জামিনদার ভাইকে ছেড়ে দিন আর আমাকে মৃত্যুদন্ড দিয়ে পবিত্র করুন। কেননা কেয়ামতের দিন আমি খুনি হিসেবে আল্লাহর সামনে দাঁড়াতে চাই না।" . আশেপাশের সবাই একেবারেই নীরব। চারিদিকে একদম থমথমে অবস্থা। সবাই হতবাক, কি হতে চলেছে। যুবকের পুনরায় ফিরে আসাটা অবাক করে দিলো সবাইকে। . খলিফা হযরত উমর (রা) যুবককে বললেন, "তুমি জানো তোমাকে মৃত্যুদণ্ড দেয়া হবে, তারপরেও কেন ফিরে এলে।" উত্তরে সেই যুবক বলল- "আমি ফিরে এসেছি, কেউ যাতে বলতে না পারে, এক মুসলমানের বিপদে আরেক মুসলামান সাহায্য করতে এগিয়ে এসে নিজেই বিপদে পড়ে গেছিলো।" . এবার হযরত উমর (রা) হযরত আবু যর গিফারী (রা) কে জিজ্ঞেস করলেন, "আপনি কেন না চেনা সত্যেও এমন জামিনদার হলেন।" উত্তরে হযরত আবু যর গিফারী (রা) বললেন, "পরবর্তিতে কেউ যেন বলতে না পারে, এক মুসলমান বিপদে পড়েছিলো, অথচ কেউ তাকে সাহায্য করতে আসেনি।" . এমন কথা শুনে, হঠাৎ বৃদ্ধের দুই সন্তানের মাঝে একজন বলে উঠল, "হে খলীফা আপনি তাকে মুক্ত করে দিন। আমরা তার উপর করা অভিযোগ তুলে নিলাম।" . হযরত উমর (রা) বললেন, কেন? তাদের মাঝে একজন বলে উঠলো, "কেউ যেন বলতে না পারে, এক মুসলমান অনাকাঙ্ক্ষিত ভুল করে নিজেই স্বীকার করে ক্ষমা চাওয়ার পরেও অন্য মুসলমান তাকে ক্ষমা করেনি।" হায়াতুস সাহাবা-৮৪৪